سیدہ طوبیٰ رضوی.
جماعت: BS-Part 3
رول نمبر: 2k18-150-MC
نام کی محبتیں
سنا تھا محبت اندھی ہوتی ہے.وہ کسی پیسہ، شکل و صورت کی محتاج نہیں ہوتی. لیکن دور حاضر میں محبت کی بینائی لوٹ آئی ہے اور اتنی تیزی سے لوٹی ہے کہ اس نے اپنے اسٹینڈرڈ سیٹ کر رکھے ہیں. اب کسی غریب سے محبت کرنے کا تصور بھی نہیں ہے. ہاں البتہ پیسہ اور گاڑی دیکھ کر محبت یوں اپنا راستہ بناتی ہے کہ دنیا تماشہ دیکھے.
’خفا ہو‘ سے ’دفا ہو‘ تک کے سفر کو آج کل کے نوجوان محبت کہتے ہیں.جی ہاں جناب یہ آج کل کی محبتوں کے افسانے ہیں جو مہذ نام کی محبتیں ہیں، فیس بُک سے شروع ہوکر واٹس ایپ پر اختتام پزیر ہوجاتی ہیں. ’میں تم سے محبت کرتا ہوں‘ سے لیکر ’امی ابو نہیں مان رہے‘ تک کا سفر طے کرتی ہیں. لو بھلا ذرا سی بات کیا ہوئی جناب محبت کر بیٹھے، دل تو ہتیلی پے لیئے پھرتے ہیں دل نا ہوا وبالء جان ہوگیا.
محبت تو وہ جزبہ ہے جو تمام جزبوں سے بالاترہے لیکن آج کل کی محبتوں کا کوئی سانی نہی، دورِ حاضر کے نوجوانوں کے لیئے مطلب پرستی و جسم پرستی کے علاوہ محبت کچھ نہیں. چند گھنٹوں کی دل لگی اور کچھ ہفتوں کی وقت گزاری کو وہ محبت کا نام دیدیتے ہیں. ’ارے آج کل جتنی جلدی محبوب بدلے جاتے ہیں اتنی جلدی تو کوئی کپڑے بھی نہیں بدلتا‘
ایسی بہت سی نام کی محبتیں ہیں جو منظرء عام پر آئی ہیں اوربہت سے ایسے واقعات بھی ہیں جن سے ہم نا واقف ہیں. آج کل کے معاشرے کا یہ علمیہ ہے کہ لڑکا تو لڑکا لڑکیاں بھی لڑکوں سے دو ہاتھ آگے ہیں.ابھی گزشتہ ماہ قبل ہی سوشل میڈیا کے ذریعہ ہونے والی محبت میں لڑکا لڑکا نہیں بلکہ بزرگ نکلا. محبت میں محبوبہ سے ملنے سرگودھا پہنچا تو محبوبہ نے اغوا کر کے گھر والوں سے تعوان کا مطالبہ کیا. صرف یہی نہیں آج کل تو آئے دن کی جانے والی محبتیں کی مثال ایسی ہے کہ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس طوڑا بارا آنے.
محبت کے عارضی نشے میں لڑکیاں اتنی اندھی ہوجاتی ہیں کہ انکو اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ ایک غلط قدم سے انکی اور انکے گھروالوں کی زندگیوں پر کیا اصرات مرتب ہوں گے. لڑکوں کے سبز باغ دکھانے پر لڑکیاں اپنا گھر چھوڑنے پر آمادہ ہو جاتی ہیں ان کو یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ جو ان سے محبت کرتا ہوگا وہ کبھی بھی گھر سے بھگانے کی بات نہیں کرے گا. اس کو آپکی عزت کا خیال آپ سے زیادہ ہوگا.محبت کا بھات اترنے پر جب انکی آنکھیں کھلتی ہیں تو وہ بدنامی کے اس پہاڑ پر کھڑی ہوتی ہیں جہاں نا انکے گھروالے انکو قبول کرتے ہیں نا یہ معاشرہ. یہ تو وہی بات ہو گئی کہ اب پچھتائے کیا جب چڑیا چُگ گئی کھیت.
ضروری نہیں ہر محبت کا انجام غلط ہو دورِ حاضر میں کچھ ایسی بھی مثالیں ہیں. جنہوں نے اپنے بے نام محبت کو نکاح کا نام دیا اللہ اور والدین کی رضا مندی کے ساتھ ایک پاک رشتے میں بندھ گئے.اب آپ ’اسد اور نمرہ‘ نامی جوڑے کی ہی مثال لے لیجیئے جو آج کل سوشل میڈیا کی زینت بنے ہوئے ہیں. 18سال کی عمر میں شادی جیسے بندھن سے بندھ گئے اپنی محبت کو نکاح کا نام دیا اور نوانوں کو ہدایت دی کے بے نامی رشتوں سے بچیں والدین کو اعتماد میں لیکر نکاح جیسے رشتے کی پاسداری کریں. اسد کے والد کا کہنا تھا کہ بیٹے کی جلدی شادی کروا کر میں نے اپنے بیٹے کو گناہ سے بچایا.
دورِ حاضر میں بوائے فرینڈ اور گرلفرینڈ کے کلچر کو ختم کرنے بے حیائی اور دھوکے فریب سے بچنے کے لیئے والدین کو بھی چاہیئے کہ بچوں کے بالغ ہوتے ہی انکو نکاح جیسے بندھن میں باندھ دیں. بچوں کو اتنی آزادی دیں کہ وہ کھل کر اپنی پسند کا اظہار کر سکیں.اپنے بچوں کو اپنا دوست بنائیں اور انکو محبت کا صحیح معنٰی سمجھائیں تاکہ محبت کے نام پر وہ اپنی اور کسی کی عزت و ذندگی کے ساتھنا
کھیلیں۔
This practical work carried out under supervision of Sir Sohail Sangi, at Media and Communication studies, University of Sindh Jamshoro
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں