Sonia Shaikh لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Sonia Shaikh لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 11 فروری، 2020

Dino jo Pirr Hyderabad by Sonia Shaikh

فیچر۔ سونیہ شیخ۔ بی ایس رول نمبر۔144

دینو کا پڑ اور اس کے ہنرمند لوگ

 Dino jo Pirr Feature by Sonia Shaikh

شہر حیدرآباد صوبائے سندھ کا ایک بڑا شہر ہے، جو پہلے نیرون کوٹ کہلاتا تھا۔کلہوڑوں کے دور میں اس کا نام حیدرآباد رکھا گیا اور اسے سندھ کا دارلحکومت بنایا گیا۔ حیدرآباد شروع سے ہی کاروبار کا ایک بڑا مرکز ہے۔ اس شہر کا سب سے بڑا کاروبار چوڑیوں کا ہے۔ یہاں کی بنی ہوئی چوڑیاں پورے ملک میں فراہم کی جاتی ہیں۔یہ شہر چوڑیوں کو بڑے پیمانے پر فراہم کرنے کا واحد مرکز ہے۔ جو پورے ملک میں بہت مشہور ہیں۔ حیدرآباد شہر اس کے علاوہ کئی کاروباروں میں مشغول شہر ہے۔ اس شہر کے الگ الگ علاقوں میں چھوٹے بڑے پیمانے پر مختلف کاروبار موجود ہیں۔ اس کا ایک مثال دینو کا پڑ ہی لے لیجئیے۔
دینو کا پڑ کھائی روڈ پر موجود ہے۔ یہاں کے لوگ بہت محنتی اور اپنے کاموں میں سرگرم رہنے والے ہیں۔ ان لوگوں میں یہ بات بہت اچھی ہے کہ یہ ایک گھر کی طرح آپس میں مل جل کر رہتے ہیں۔جن میں ایک دوسرے کا خیال، احساس اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ موجود ہے۔ جب کوئی بڑا دن مذہبی یا تاریخ کے لحاظ سے آتا ہے، تو یہ سب مل کر اس دن کو مناتے ہیں۔ اپنی گلیوں کو پھولوں سے سجاتے ہیں اور رنگین روشنیوں سے روشن کرتے ہیں۔ یہ ان کے بھائی چارے اور اتحاد کا نتیجہ ہے۔ کیوں کہ یہاں کے رہنے والے خاندان کئی سالوں سے اس جگہ کے مقین ہیں۔
اس جگہ پر ایک سے زیادہ کاروبار ہیں۔ جن میں کاغذ، چمڑے، رنگ ریز اور لکڑی کے چھاپے کے کاروبار سالوں سے چلتے آرہیں ہیں۔ یہ تمام کاروبار بہت پرانے ہیں اور یوں کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ یہ خاندانی کاروبار ہیں۔ کاروبار چاہے کوئی بھی ہو، اسے چلانے کے لیے بڑی محنت اور وقت درکار ہوتا ہے۔ یہ لوگ اپنے کاروبار کو کامیاب بنانے کے لیے بہت محنت کرتے ہیں اور اگر کوئی مشکل پیش آتی ہے تو اس سے لڑ کر اپنا کام پورا کرتے ہیں۔اس سے یہاں کے لوگوں کی محنت اور لگن کا اندازہ ہوتا ہے۔
کاغذ سے کاپی یا رجسٹر بنانے کا کاروبار تقریباً تیس سالوں سے چلتا آرہا ہے۔ یہ لوگ لاہور سے یا کراچی سے کاغذ خریدتے ہیں پھر اردو بازار یا میرپورخاص سے آرڈر لے کر ان کو مختلف قسم کی کاپیاں اور رجسٹر دو سو، تین سو اور چار سو پیجز کے بناکر دیتے ہیں۔ چمڑے کے کاروبار میں چپل اور بیگز بڑی مہارت سے بنائے جاتے ہیں۔ چمڑے کے کاروبار میں یہاں تین سے چار دکان مصروف رہتے ہیں۔ ایک دکان پر مارکیٹ سے چمڑہ آتا ہے، جہاں چمڑے کو جوتے کی مختلف ناپ پر کاٹا جاتا ہے۔ یہ کام ایک پریس مشین سے کیا جاتا ہے۔ جس میں ایک ناپ کا سانچہ رکھ کر اس کے اوپر چمڑے کا ٹکڑا رکھا جاتا ہے۔ پھر پریس مشین کے ذریعے وہ ٹکڑا اس ناپ پر کٹ جاتا ہے۔ ایسے ہی چمڑے کو مختلف ناپ میں کاٹ کر دوسری دکان تک پہنچایا جاتا ہے۔ جہاں مختلف قسم کی ذزائینز سے اسے جوتے کی شکل دے کر آگے پہنچایا جاتا ہے۔ یہاں تقریباً پچاس ساٹھ سالوں سے یہ کام ہو رہا ہے۔ پہلے لوکل مارکیٹ کے آرڈر پورے کیے جاتے تھے اور اب پاکستان کی مشہور برانڈز باٹا، سروس اور بورجان کے آرڈر پورے کیے جاتے ہیں۔لاہور (اے۔ٹی۔ایس پاکستان کی نامور برانڈ) سے پورے سال کا آرڈر لیتے ہیں، پھر ان کو وقت پر ان کا مال پہنچاتے ہیں۔ ساتھ ہی ایک دکان جوتے کے باکس بھی بناتی ہے۔ یعنی اس چھوٹے سے علاقے میں ایک چمڑے کا ٹکڑا خوبصورت اور نایاب شکل اختیار کر کے باکس میں مارکیٹ تک پہنچایا جاتا ہے۔
                         
رنگ ریز ایک ایسی مزدوری کا نام ہے جس میں کپڑوں کو ہینڈ ڈائے کیا جاتا ہے۔یہ کام لوگ اپنے گھر میں کرتے ہیں۔ آرڈر پر ریشم گلی سے کپڑے لاتے ہیں اور جیسے مالکان مطالبہ کرتے ہیں ویسے ہی رنگ ان کپڑوں پر چھڑا کر مالکان تک پہنچاتے ہیں۔ رنگ ریز کا کام بڑی احتیاط سے کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ کپڑوں کی رنگائی کے لیے پُر جوش آب میں رنگ ڈال کر کپڑوں کو ہوشیاری سے غوطے لگائے جاتے ہیں۔ رنگ ریز کے کام کو ستر سال سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔یہاں یہ کام پاکستان بننے سے پہلے لوگ انڈیا سے کرتے آرہے ہیں۔ ان تمام محنت کش کاموں میں سب سے پرانا کاروبار لکڑی کا چھاپہ ہے۔
لکڑی کا چھاپہ بہت قدیم اور اس جگہ کا سب سے مشہور کاروبار ہے۔یہ کاوربار دوسرے کاموں سے زیادہ محنت کش اور مشکل ہے۔ اس کام کو وقت پر پورا کرنا ایک چیلنج سے کم نہیں۔ کیوں کہ دوسرے کا تو ہاتھ سے بھی کیئے جاتے ہیں، مگر یہ کاروبار بجلی پر چلتا ہے۔ اگر بجلی کا بحران ہو جائے تو ان کو اپنا کاروبار چلانے میں بڑی مشکلیں درپش آتی ہیں۔ تقریباً ایک صدی سے یہ کاروبار ان کے آباواجداد چلاتے آرہے ہیں۔ پہلے یہ کام ہاتھوں سے کیا جاتا تھا۔ چھوٹے چھوٹے اوزاروں سے لکڑی پر نقش نگاری کی جاتی تھی، پھر اس کی ہاتھ سے کٹائی کی جاتی تھی۔وقت گزرنے کے ساتھ مشینوں کی جدت آئی، جس سے یہ کام تھورا آسان ہوا۔
                               
 افغانستان سے دیار، چلغوذہ(لکڑی کے اقسام) اور پنجاب سے شیشم ٹمبر مارکیٹ میں آتی ہیں، یہ لوگ  وہاں سے وہ لکڑی خریدتے ہیں۔لکڑی اگر خشک نہیں ہوتی تو اسے تین سے چار دن تک رکھتے ہیں پھر اس  پر کام شروع کرتے ہیں۔ یہ کام چھ سے سات لوگوں کا ہوتا ہے۔پہلے گسائی مشین میں لکڑی کی گسائی ہوتی ہے۔ پھر ہاتھ سے نقش نگاری ہوتی ہے یا پریس مشین میں ڈائی(مختلف ناپ اور ڈزائینز کے لوہے کے سانچے) رکھ کر مختلف قسم کے ڈزائینز بنائے جاتے ہیں۔ جس میں سندھی، بلوچی، اجرک، کینوس، بنارسی اور پَشکِ نایاب جیسی خوبصورت ڈزائینز قابل ذکر ہیں۔ اس کے بعد آرا مشن میں لکڑی کی کٹائی کی جاتی ہے۔ آخر میں ان لکڑی کے ٹکڑوں کو صاف کر کے ان پر رنگ کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ان تمام مختلف ڈزائینز کے سیٹ کو الگ الگ تھلے میں محفوظ کر کے دکاندار تک پہنچایا جاتا ہے۔ جہاں سے وہ اندورن سندھ، بلوچستان اور ایران تک فراہم کیے جاتے ہیں۔ یہ کاروبار اس علاقے کا مشہور کاروبار ہے، جو دینو کے پڑ کو دوسروں سے الگ کرتا ہے۔

Sonia Shaikh,Dino Jo pirr,Feature,Hyderabad, 
Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi